کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کا مال لوٹتے اور ناحق قتل کرواتے تھے؟
مرزا صاحب یہ دلیل عموماً اپنے پمفلٹس اور تقریروں میں پیش کرتے رہتے ہیں، ہم نے پہلے بھی بتایا ہے کہ دلیل ہے تو کوئی نہیں، دلیل تراشنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے کہ جس کو مرزا صاحب پیش کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما خلیفہ کی اطاعت کے حوالے سے ایک حدیث بیان کر رہے تھے ان کے سامنے عبد الرحمٰن بن عبد ربہ کعب بیٹھا ہو اتھا اس نےا یک سوال کر دیا کہ آپ کے چچا کا بیٹا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم لوگوں کے مال کو ناحق طریقے سے کھائیں اور لوگوں کو ناحق قتل کریں، حالانکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے تو سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے پھر انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی اطاعت میں جب کوئی بات کرے تو تم ان کی اطاعت کر اور جب وہ اللہ کی نافرمانی میں کوئی بات کرے تو ان کی اطاعت نہ کرو۔
مرزا صاحب اس کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ دیکھیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کا مال بھی لوٹتے تھے اور لوگوں کو ناحق طریقے سے قتل بھی کرواتے تھے۔
اس حدیث کے الفاظ بول بول کر مرزا صاحب کے جھوٹ کو واضح کر رہے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ یہ بات جو کر رہا ہے وہ شخص کون ہے؟ وہ سیدنا معاویہ کا سیاسی حریف ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حامی ہے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا مخالف ہے اور کھل کر تنقید بھی کر رہا ہے، یہ مخالف آدمی ہے، اگر کسی کو قتل کروانا تھا تو کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے حامیوں کو حکم دیتے یا پھر اپنے مخالف کو؟ان کی عقل کو سلام۔ یہ شخص سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے سیاسی نظریے کو نہیں مانتا اور سارے سلف بھی یہی کہتے ہیں، مثال کے طور پر شرح نووی میں امام نووی رحمہ اللہ نے یہی بات کی ہے جو ہم نے بیان کی ہے تو جو لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حق پر سمجھتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ جو لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جنگ میں لوگ قتل ہو رہے ہیں وہ نا حق قتل ہو رہے ہیں، جو مال خرچ ہو رہا ہے وہ ناحق ہو رہا ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں حق پر نہیں سمجھتے تھے اور مسند احمد کی حدیث کئی بار بیان کر چکے ہیں کہ جس میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما نے تو دورانِ جنگ ہی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہہ دیا تھا کہ میں آپ کے ساتھ تو ہوں لیکن آپ کے ساتھ مل کر لڑائی نہیں کر رہا، آپ لوگ غلطی پر ہو، کیونکہ عمار رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی چونکہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کے ہاتھوں ہوئی لہذا آپ غلطی پر ہیں، باغی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اجتہادی غلطی پر ہونگے جیسا کہ ہم اپنے پچھلے لیکچر میں یہ بات مرزا صاحب کے پمفلٹ سے ہی ثابت کر آئے ہیں تو سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما جو مرزا صاحب کے بقول بھی سیدنا معاویہ کے حامی نہیں ہیں اس معاملے میں اس کے باوجود بھی وہ خاموش ہو کر امت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آپ نے بھی اس معاملے میں خاموش ہی رہنا ہے، یہ اجتہادی معاملہ ہے اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ غلطی پر بھی ہوئے تو انہیں کم ازکم ایک اجر تو ملے گا ہی، انہوں نے کوئی منفی تبصرہ نہیں کیا اور پھر سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما نے مشاجرات صحابہ کے مسئلہ میں فہم سلف بتایا کہ ہم نے مشاجرات صحابہ کے مسئلے میں اپنی زبان کو بند رکھنا ہے کوئی منفی تبصرہ نہیں کرنا، جو کرے گا اس کا اپنا ایمان برباد ہو جائے گا۔ خاموش ہو کر انہوں نے جواب دیا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اللہ کی فرمانبرداری میں جو حکم دیں اس کو مان لو اور جس بات کو تم سمجھتے ہو کہ اس میں اللہ کی نافرمانی ہے اسے چھوڑ دو۔ آج بھی کوئی شخص سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو اجتہادی خطا پر سمجھتا ہے اسے بھی چاہیے کہ وہ کوئی منفی تبصرہ نہ کرے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ عبد الرحمن بن عبد رب کعبہ نے جو اعتراض کیا اس کا پس منظر یہ تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پہ مسلمانوں نے بیعت کر لی، بیعت کے بعد خلیفہ کی اطاعت کرنے کا حکم ہے اور اس کی نافرمانی سے رکنے کا حکم ہے تو معاویہ جو اپنے لشکروں پر مال خرچ کر رہے ہیں اور جو لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی میں مارے جا رہے ہیں یہ تو گویا ناحق ہے تو اس تناظر میں عبد الرحمن بن عبد رب کعبہ نے یہ بات کی تھی کہ یہ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت ہے جو درست نہیں ہے، حق نہیں ہے ناحق ہے، یہ ان کا ایک مؤقف تھا جب کہ ہم اپنے پچھلے لیکچرز میں صحیح بخاری ومسلم سے یہ حوالہ پیش کر چکے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ لڑائیوں اور جنگوں میں اولی بالحق ہیں، یہ کہنا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بلکل حق پر تھے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بلکل ہی باطل پر تھے لیکن اس کے باوجود بھی کچھ لوگ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں، تم خود لکھ رہے ہو کہ یہ اجتہادی معاملہ ہے، اللہ ان کے اس عمل پر راضی ہے اور انہیں ایک اجر دے رہا ہے لیکن آپ لوگ اللہ کے اجر دینے پر راضی نہیں ہیں، آپ اللہ سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں؟ آپ کہتے ہیں کہ ہمارے دل میں ان کے لیے رنج ہے، یہ اللہ کا مقابلہ نہیں تو اور کیا ہے؟
الحمدللہ ہم نے ان کی اس دلیل کا جواب صحیح مسلم کے شارح علامہ نووی رحمہ اللہ سے ہی پیش کیا ہے اور اسی حدیث میں سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما بیان کر رہے ہیں کہ مشاجرات صحابہ میں کیا مؤقف اپنانا ہے۔
