حضرت علی یا مولا علی رضی اللہ عنہ

حضرت علی یا مولا علی رضی اللہ عنہ؟

مرزا صاحب سے علمی وتحقیقی مجلس نمبر 10 میں ایک سوال کیا گیا کہ مولانا طارق جمیل صاحب کا ایک نیا کلپ آیا ہے جس میں انہوں نےفرمایا ہے کہ ”مولا علی کہنا چاہیے، حضرت علی نہیں کہنا چاہیے‘‘ تو مرزا صاحب نے اس کا جواب دیا کہ ’’اس معاملے میں مولانا طارق جمیل صاحب نے جتنی بھی باتیں کی ہیں وہ بلکل ٹھیک ہیں۔‘‘

ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل صاحب نے کون کون سی باتیں کی ہیں اور وہ کیسے درست ہوسکتی ہیں؟ مولانا طارق جمیل صاحب نے کہا کہ ”سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا!

مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ

جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولاہے۔

کہتے ہیں کہ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں تو نہیں فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں ابوبکر بھی اس کا مولا ہے، مولاعلی کہنا چاہیے کیونکہ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ہے۔

تو سب سے پہلے بلکل عام فہم بات یہ ہے کہ مولانا صاحب کی کتنی بڑی خطاء ہے۔ صرف اگر عقل سے ہی تھوڑا ساکام لیا جاتا تو یہی حدیث انہیں بتا دیتی کہ ان کا مؤقف بلکل غلط ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ”مولا علی کہنا چاہیے، حضرت علی نہیں کہنا چاہیے‘‘ تو پہلے ہم مولانا طارق جمیل صاحب سے پوچھتے ہیں اور پھر مرزا صاحب سے کہ آپ نے یہ جو مان لیا کہ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ہے تو یہ خصوصیت کیسے ہوئی جناب؟ اس حدیث کا پہلا ٹکڑا

مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ

جس کا میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) مولا ہوں۔

اس ٹکڑے کو عملاً ٹھکرا دیا اس پر عمل نہیں کیا، اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مولا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ان کی خصوصیت ہے اور ان کے نام کے ساتھ یہی لفظ بولنا چاہیے تو پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ لفظ بالاولی بولنا چاہیے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پہلے یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہوئی کیونکہ آپ تو فرما رہے ہیں کہ ’’جس کا میں مولاہوں‘‘ مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مولا ہیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی مؤمنوں کے مولاہیں تو اس کا مطلب یہ ہواکہ طارق جمیل صاحب کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہنا چاہیے بلکہ مولا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہنا چاہیے اور یہ کہنا چاہیے کہ مولا صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی خصوصیت ہے۔ دونوں کے ساتھ مولا کا لفظ بولنا چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری (2699) حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ تینوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا!

أنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ

آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں۔ (محبت اور قرابتداری کا یہ اظہار فرمایا)

سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا!

أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِ

آپ شکل وصورت اور اخلاق میں بھی میرے مشابہ ہیں۔

سیدنا زید رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا!

أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا

آپ ہمارے بھائی بھی ہیں اور ہمارے مولا بھی ہیں۔

تو مولا کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی فرمایا تو پھر کیا خیال ہے کہ یہ لسٹ تھوڑی سی وسیع نہیں کرلینی چاہیےکہ یہ مولا کا لفظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی خاص ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی خاص ہے اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی مولا کا لفظ خاص ہے۔ کیا علمائے دیوبند میں سے مولانا طارق جمیل صاحب کو ہی یہ حدیث سمجھ آئی ہے کہ مولاعلی کہنا چاہیے، حضرت علی نہیں کہنا چاہیے اور یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ہی خصوصیت ہے؟ اہل سنت میں سے کسی نے کہا ہے کہ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ہے؟ تو یہ مولانا طارق جمیل صاحب کی ایک علمی خطاء ہے۔

انجینئر صاحب کہتے ہیں کہ ”اس معاملے میں مولانا طارق جمیل صاحب نے جتنی بھی باتیں کی ہیں وہ بلکل ٹھیک ہیں۔‘‘ حالانکہ مولانا طارق جمیل صاحب نے مولا کا جو معنی کیا ہے وہ بھی غلط کیا ہے، کہتے ہیں کہ یہاں مولا کا معنی دوست یا دلی محبوب کا نہیں ہے بلکہ اس کا معنی”آقا اور سردار‘‘ ہے اور یہ وہ معنی ہے جو روافض کرتے ہیں اور اس سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلافصل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مولانا طارق جمیل صاحب بڑے کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ

’’شیعہ جو مولاعلی کہتے ہیں وہ صحیح کہتے ہیں۔‘‘

سب کو معلوم ہے کہ شیعہ توخلیفہ بلافصل سمجھ کر مولاعلی کہہ رہے ہوتے ہیں تو مولاناطارق جمیل صاحب اور مرزا صاحب سے یہ سوال ہے کہ وہ صحیح کیسے ہوگئے؟ مولانا طارق جمیل صاحب نے یہ معنی ہی بلکل غلط کیا ہےا ور سلف صالحین مولا کا جو معنی کرتے رہے ہیں اس کو مولانا صاحب کہتے ہیں کہ یہ معنی تو ہے ہی نہیں۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔

امام ِ لغت، امام ابن اسیر رحمہ اللہ (النھایہ فی غریب الحدیث والاثر 5/229) فرماتے ہیں کہ

وَقَدْ تَكَرَّرَ ذِكْرُ «المَوْلَى» فِي الْحَدِيثِ، وَهُوَ اسْمٌ يقَع عَلَى جَماعةٍ كَثيِرَة، فَهُوَ الرَّبُّ، والمَالكُ، والسَّيِّد، والمُنْعِم، والمُعْتِقُ، والنَّاصر،والمُحِبّ،والتَّابِع،والجارُ،وابنُ العَمّ، والحَلِيفُ، والعَقيد، والصِّهْر، والعبْد، والمُعْتَقُ، والمُنْعَم عَلَيه.

حدیث میں مولا کا لفظ بہت دفعہ آیا ہےاور یہ لفظ بہت سارے معانی پر استعمال کیا جاتا ہے، مثال کے طور مولا کا معنی رب، مالک، سردار، کسی پر احسان کرنے والا، کسی غلام کو آزاد کرنے والا، کسی کی مدد کرنے والا، محبت کرنے والا، فرمانبرداری کرنے والا، چچا کا بیٹا، جس سے معاہدہ ہواور اسی طرح رشتے داروں، غلام اور جس پر کوئی احسان کیا جائےاس کو بھی مولا کہتے ہیں۔

والمُوَالاةُ مِن وَالَى القَوْمَ. وَمِنْهُ الْحَدِيثُ «مَن كُنْتُ مَوْلاه فَعَليٌّ مَوْلاه» يُحْمَل عَلَى أكْثر الأسْمَاء المذْكورة.

مولا کا لفظ ”المولاۃ‘‘ سے مشتق ہے تو اس کا معنی ہوتا ہے کسی قوم سے محبت رکھنا اور یہ معنی اس حدیث میں ہے

مَن كُنْتُ مَوْلاه فَعَليٌّ مَوْلاه

یعنی جس کا میں محبوب ہوں اس کے دلی محبوب سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی ہونے چاہییں۔

یہ تھا اصل معنی جس کا مولانا طارق جمیل صاحب نے انکار کر دیا۔

امام بیھقی رحمہ اللہ (الاعتقاد 1/354) میں لکھتے ہیں کہ

فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَذْكُرَ اخْتِصَاصَهُ بِهِ وَمَحبَّتَهُ إِيَّاهُ وَيَحُثُّهُمْ بِذَلِكَ عَلَى مَحَبَّتِهِ وَمُوَالِاتِهِ وَتَرْكِ مُعَادَاتِهِ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اپنے ساتھ خصوصی تعلق اور اپنی محبت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو تھی وہ ذکر کرتے اور لوگوں کو بھی ترغیب دیتے کہ وہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ

اس کے آگے الفاظ ہیں کہ

اللَّهُمْ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ

اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تُو اس سے بھی محبت رکھ اور جو علی سے نفرت رکھے تُو اس سے نفرت کر۔

وہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ ہی معنی بیا ن کیا گیا ہے کہ جس کو مجھ سے محبت ہے اس کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت ہونی چاہیے اور یہی معنی دوسری حدیث میں ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے، (یہاں اس کی سند پر بحث نہیں ہے)

لَا يُحِبُّنِي إِلَامُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُنِي إِلَّا مُنَافِقٌ

مجھ سے محبت نہیں رکھے گا مگر مؤمن، مجھ سے نفرت نہیں رکھے گا مگر منافق۔

یہ تھی اصل بات کہ مولانا طارق جمیل صاحب جو کہتے ہیں کہ دوست اور محبوب والا معنی درست نہیں ہے، ہم نے سلف صالحین اور حدیث سے یہ ثابت کر دیا کہ یہاں مولا کا معنی ”آقا اور سردار‘‘ نہیں ہے بلکہ اس کا معنی دوست ومحبوب ہے۔


جواب دیں