سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بمقابلہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بمقابلہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ

کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اشاروں وکنایوں میں کی جاتی ہیں اور وہ بڑی خطرناک باتیں ہوتی ہیں انجینئر محمد علی مرزا صاحب کہتے ہیں کہ ’’ہم مولانا طارق جمیل صاحب کو دیوبند میں ایسے سمجھتے ہیں جیسے آل امیہ میں عمر بن عبد العزیز کو سمجھتے ہیں‘‘، مطلب یہ ہے کہ اگر دیوبند میں کوئی کام کا بندہ ہے تو وہ مولانا طارق جمیل صاحب ہیں اور آل امیہ میں کوئی کام کے بندے تھے تو وہ سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تھے، نعوذ باللہ۔

یہ بات بہت ہی زیادہ خطرناک ہے اور یہ اہل سنت کے بنیادی عقائد کے سو فیصد خلاف ہے، شعوری طور پر ایسا کہنے والا تو وہ اہل سنت سے بلکل خارج ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ آل امیہ میں بہت بعد آئے ہیں۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جو تیسرے خلیفہ راشد ہیں، اسلام میں آل امیہ میں سے جو نمایاں شخصیات ہیں ان میں ان کا شمار ہوتا ہے، یاد رکھیں کہ آل امیہ قریشی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریشی تھی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے،

’’عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ القرشی الاموی‘‘

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل بے شمار ہیں یہاں ان کو بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ ان کے بعد آل امیہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں، ان کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے،

’’معاویہ بن ابی سفیان صخر بن حرب بن امیہ القرشی الاموی‘‘

اور آل امیہ میں نمایاں شخصیات میں سے سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ بھی ہیں، ان کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے،

’’ابو سفیان صخر بن حرب بن امیہ القرشی الاموی‘‘

تو یہ تین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آل امیہ میں نمایاں شخصیات ہیں اور مرزا صاحب نے جو کہا ہے کہ ’’ہم مولانا طارق جمیل صاحب کو دیوبند میں ایسے سمجھتے ہیں جیسے آل امیہ میں عمر بن عبد العزیز کو سمجھتے ہیں‘‘ یہ اتنا خطرناک جملہ ہے کہ اس جملے سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بھی توہین کی گئی، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بھی توہین کی گئی اور سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بھی توہین کی گئی، اگر مرزا صاحب ان کو آل امیہ میں اچھا سمجھتے ہوتے تو وہ پہلے ان کا تذکرہ کرتے چونکہ مرزا صاحب کے دل میں صحابہ کرام کے لیے میل اور رنج ہے اس لیے مرزا صاحب نے ان تین جلیل القدر صحابہ کی توہین کی، عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ صحابی نہیں ہیں جبکہ آ ل امیہ میں یہ جلیل القدر تین صحابہ موجود ہیں بلکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جو خلیفہ ثالث ہیں ان سے بھی زیادہ ایک غیر صحابی کو فضیلت دینا توہین نہیں تواور کیا ہے؟ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر ہیں اور سسر باپ کے مقام پر ہوتا ہے اگرچہ امتی ہونے کہ وجہ سے ان کو یہ مقام زیادہ نہیں ملا لیکن رشتے داری تو ختم نہیں ہوسکتی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتے داری ہے تو ہم اس کا احترام کرتے ہیں حالانکہ وہ نیچے کی طرف رشتے داری ہے لیکن ہم دل وجان سے اہل بیت سے محبت کرتے ہیں تو جو رشتے داری اوپر کی طرف ہے اہل بیت علیھم السلام کا نام پیٹنے والے ان کو سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتے داری کیوں نہیں دیکھتی؟ ”زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، مؤمنوں کی ماں، سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنھما‘‘، آپ اندازہ لگائیں کہ مرزا صاحب کا ایک جملہ کہاں تک جاتا ہے؟ اس رشتے داری کا کوئی احترام نہیں ہے؟ اس رشتے داری کے بارے میں تم لوگ کہتے ہو کہ وہ بد نیت تھے؟ تو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سیدنا عثمان، سیدنا معاویہ اور سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنھم ان سب کے مقابلے میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو فوقیت دینا اور کہنا کہ ’’آل امیہ میں کام کے بندے تو صرف سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ہی ہیں‘‘ یہ بہت بڑی خیانت ہے اور یہ اہل سنت کے بنیادی عقائد سے صاف صاف انحراف ہے۔

جواب دیں