مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنھم کی تعریف

مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنھم کی تعریف

انجینئر محمد علی مرزا صاحب! آپ کو تو یہ ہی معلوم نہیں ہے کہ ’’مشاجراتِ صحابہ‘‘ کسے کہتے ہیں۔ کیا کسی صحابی کا کسی شرعی مسئلے میں دوسرے صحابی سے اختلاف کرنا مشاجراتِ صحابہ کہلاتا ہے؟ بلکل نہیں، مشاجراتِ صحابہ تو سیاسی اختلافات ہیں جس طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیا ن اختلاف ہوا اور اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مابین جو سیاسی اختلاف ہوا اس کو مشاجرات صحابہ کہا جاتا ہے۔ مرزا صاحب مثال پیش کرتے ہیں کہ ”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے حج تمتع کے حوالےسے اپنے باپ سے مخالفت کرلی تواس کو کسی نے نہیں کہا کہ یہ مشاجراتِ صحابہ بیان ہو رہے ہیں‘‘۔

مرزا صاحب! آپ کو تو مشاجراتِ صحابہ کی تعریف ہی نہیں آتی، یہ مشاجراتِ صحابہ کا مسئلہ نہیں ہے، امت میں سے کسی نے کہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف اگر کسی نے کوئی بات کہی ہو تو اس کو ردّ کر دینا مشاجراتِ صحابہ کا مسئلہ ہے؟ مشاجراتِ صحابہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے باہمی سیاسی اختلافات کو کہتے ہیں جس میں لڑائی جھگڑے ہو گئے اور بات آگے تک چلی گئی، جس کو مرزا صاحب مشاجراتِ صحابہ کا مسئلہ کہہ رہے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر مشاجراتِ صحابہ بہت ہیں، کسی نے اگر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا تو اس کو مشاجراتِ صحابہ کا مسئلہ کہہ دیا جائےگا۔

مرزا صاحب کہتے ہیں کہ ’’یہ حدیث تو اہل حدیث بھی بیان کرتے ہیں، سنت کو اگر اسٹیبلش کرنا ہے تو سنت صرف حضرت عمر پر تو اسٹیبلش نہیں ہوئی نا؟ جنگِ جمل اور صفین والوں پر بھی اسٹیبلش ہوگی‘‘۔

مرزا صاحب کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ابن عمر رضی اللہ عنھما اپنے والد سے اختلاف کرسکتے ہیں اور مرزا صاحب کے بقول یہ مشاجرات صحابہ کا مسئلہ ہے تو جو ہم جنگِ جمل اور صفین والوں کے بارے میں کہتے ہیں وہ بھی تو صحیح ہی کہتے ہیں۔

مرزا صاحب! یہاں آپ بہت بڑا ہاتھ کر رہے ہیں امت کے ساتھ، ہم آپ کی یہ بات مان لیتے ہیں اور ہم آپ سے کہتے ہیں کہ اگر آپ کے نزدیک جنگِ جمل اور صفین والوں کا معاملہ اسی طرح تھا تو پھر آپ بھی اتنی ہی بات کریں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے اجتہادی غلطی ہو گئی تھی ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے اور آپ اس پر کوئی منفی تبصرہ نہ کریں پھر تو آپ کی حق گوئی واضح ہو گی اور اگر آپ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ الفاظ کہیں گے کہ انہوں نے سنت کو بدل دیا اور انہوں نے دین کا بیڑاغرق کردیا تو پھر آپ یہی الفاظ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیوں نہیں کہتے؟ کیونکہ آپ کے نزدیک جنگ جمل وصفین اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کا حج تمتع کے حوالےسے اپنے والد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف کرنا ایک ہی نوع کا مسئلہ ہے تو پھر آپ منافقت کو چھوڑیں اور جس طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ زبان چلاتے ہیں اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی چلائیں، خاموش کیوں ہو جاتے ہیں؟ یہ آپ کی منافقت ہے، مثالیں آدم علیہ السلام کی دیتے ہیں کہ قرآن نے ان کی غلطی بیان کی ہے اور تبصرے اپنے مرضی کے کرتے ہیں۔ کبھی آپ نے کہا کہ ہمارے دل میں سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے رنج ہے انہوں نے انسانیت کا بڑا نقصان کر دیا ؟ اگر کبھی ایسا نہیں کہا تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں دوغلی پالیسی کیوں اختیار کرتے ہیں؟ اللہ آپ کو ہدایت دے۔ آمین

جواب دیں