مشاجرات صحابہؓ بیان نہ کرنا کتمان حق ہے؟
لیکن ان تمام باتوں کا علم ہونے کے باوجود بھی انجینئر محمد علی مرزا صاحب کہتے ہیں کہ مشاجرات صحابہ کو عوام کے سامنے بیان نہ کرنا یہ بھی انکار حدیث ہے۔
تبصرہ:
سب سے پہلے ہم اپنے سامعین سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ انجینئر صاحب جو کہتے ہیں کہ اہل سنت مشاجرات صحابہ کی حدیثوں کو چھپا لیتے ہیں ان کو بیان نہیں کرتے، حالانکہ اللہ نے تو بیان کرنے کا حکم دیا ہے کتمان علم کا تو یہ یہ نقصان ہے اور اس پر بڑی سخت وعیدی ہیں تو ہم ذیل میں 6 ایسی حدیثیں بیان کریں گے کہ جن کا تعلق سکوت کے ساتھ ہے، کسی مسئلے پر کس وقت حدیث بیان کرنے سے رکا بھی جا سکتا ہے، ابھی جو روایات ہم ذکر کرنے والے ہیں مرزا صاحب نے کبھی بھی وہ بیان نہیں کی ہونگی اور نہ ہی آپ نے کبھی ان کی زبانی سنی ہونگی تو کیا اس چیز کو کتمان حق کا نام دیا جائے گا؟
پہلی حدیث:
صحیح بخاری (حدیث: 126) میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يَا عَائِشَةُ !لَوْلاَ قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ بِكُفْرٍ، لَنَقَضْتُ الكَعْبَةَ فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ: بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ
اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی، اگر مجھے کسی فتنے کا ڈر نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو ڈھا دیتا اور میری خوہش تھی کہ میں اس کے دو دروازے بناتا ایک دروازہ نکلنے کے لیے اور ایک دروازہ داخل ہونے کے لیے۔
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی ذہنی سطح کو دیکھتے ہوئے اپنی خواہش کہ جس پر آپ عمل کرتے تو وہ آپ کی حدیث ہی ہونی تھی لیکن اپنی شدید خواہش کے باوجود بھی آپ نے اس کو روک لیا تاکہ لوگ کہیں فتنے کا شکار نہ ہو جائیں کیونکہ ان کی اتنی ذہنی سطح نہیں تھی۔
اب اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
بَابُ مَنْ تَرَكَ بَعْضَ الِاخْتِيَارِ، مَخَافَةَ أَنْ يَقْصُرَ فَهْمُ بَعْضِ النَّاسِ عَنْهُ، فَيَقَعُوا فِي أَشَدَّ مِنْهُ
اگر کوئی شخص کسی موقعے پر ایک نیک عمل چھوڑ دیتا ہے اس وجہ سے کہ لوگوں کی ذہنی اپروچ اس کو ابھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ وہ کسی فتنے کا شکار نہ ہو جائیں۔
اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ بھی باب قائم کیا ہے اور اس کے تحت امام صاحب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول بھی لیکر آئے ہیں جو ان سے صحیح سند سے ثابت ہے اور وہ قول سننے کے بعد جو حضرات اہل بیت کی محبت کے دعویدار ہیں ان کے غبارے سے آج ہو انکل جائے گی:
بَابُ مَنْ خَصَّ بِالعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ، كَرَاهِيَةَ أَنْ لاَ يَفْهَمُوا
مفہوم: اس بات کا بیان کہ احادیث بیان کرنے والا کچھ لوگو ں کو تو قرآن وحدیث بیان کرے اور کچھ لوگوں کو بیان نہ کرے اس بات کی وجہ سے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس بات کو سمجھ ہی نہ سکیں اور گمراہی کاشکار ہو جائیں۔
دوسری حدیث:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم: 31) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ساتھ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھما اور لوگ بھی وموجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کے چلے گئے، تھوڑی دیر کے بعد ہمیں ڈر محسوس ہوا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی دشمن حملہ آور نہ ہو گیا ہو، سب سے پہلے میں اٹھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنے لگ گیا، میں انصار کے ایک باغ کے پاس جا پہنچا اور اس کا دروازہ ڈھونڈنے کے لیے اس کے ارد گرد چکر لگاتا رہا لیکن دروازہ نہ ملا، کہتے ہیں کہ میں نے ایک نالا دیکھا جو باغ کے اندر کو جا رہا تھا، میں نے اپنے آپ کو سمیٹا اور اس نالے کے ذریعے نالے میں داخل ہو گیا اور وہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر میرے دل کو سکون ہو گیا، آپ نے پوچھا کہ ابوہریرہ آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ جی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ میرے دو جوتے لے جاؤ (جوتے اس لیے دیئے کیونکہ جو پیغام بھیج رہا ہوں وہ بہت اہم ہے اور لوگ اس پیغام کو ماننے میں پس وپیش نہ کریں تو جوتے ساتھ دے دیئے تاکہ پتہ چلے کہ واقعے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہے):
فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ
یہ میرے جوتے کے جاؤ اور جو بھی آپ کو اس باغ کے باہر ملے اور وہ سچے دل سے یہ شہادت دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے آپ اس کو میری طرف سے جنت کی خوشخبری دے دیں، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں وہاں سے نکلا اور سب سے پہلے مجھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ملے میں نے ان کو سارا واقعہ سنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق جنت کی بشارت دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا، میں نیچے گر گیا میں نے اپنا رونا بڑی مشکل ہی روکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا، پیچھے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا کیا ہوا ہے؟ میں نے سارا معاملہ بیان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر سے سید ابوہریرہ کو مارنے کی وجہ پوچھی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا، فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ
مفہوم: مجھے ڈر ہے کہ لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور ان کی ذہنی سطح اس قول کو ماننے کے لیے تیار نہ ہو وہ اسی پر اعتماد کر لیں اور یہ سمجھ لیں کہ گویا ہمیں عمل کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انہیں عمل کرنے دیجیئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: ان لوگوں کو عمل کرنے دو، انہیں یہ حدیث نہ سناؤ۔
تیسری حدیث:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے (صحیح بخاری: 128) سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کی توجہ اپنی طرف کرنے کے لیے باربار مخاطب کر کے فرمایا:
مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ
مفہوم: جو بھی توحید ورسالت کی گواہی اپنے سچ دل کے ساتھ دے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے گا تو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
أَفَلاَ أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا؟
کیا میں لوگوں کو جاکر بتادوں اس حدیث کے بارے میں، لوگ بھی خوش ہو جائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذًا يَتَّكِلُوا
نہیں معاذ! لوگ تو پھر اسی پر اعتماد کر لیں گے اور اعمال چھوڑ دیں گے۔ ساری زندگی اس کو حدیث پھر بیان ہی نہیں کیا موت کے وقت سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے گناہ سے بچنے کے لیے اس حدیث کو بیان کیا۔
نبی پاک نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو تو یہ حدیث سنائی لیکن عام لوگوں کو یہ بیان کرنے کی انہیں اجازت نہیں دی، ہو سکتا ہے کہ ان کے ذہن میں یہ بات آ جائے کہ ہمیں عمل کی ضرورت نہیں ہے بس ہم نے کلمہ پڑھ لیا ہے تو یہی کافی ہے۔
چوتھی حدیث:
صحیح بخاری (129) میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ
جو اس حالت میں فوت ہوا کہ اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراتا ہو وہ جنت میں جائے گا، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں کو جا کر یہ خوشخبری نہ سنا دوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاَ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا
نہیں معاذ! مجھے ڈر ہے کہ لوگ تو پھر اسی پر ہی اعتماد کر لیں گے اور اعمال چھوڑ دیں گے۔
بعض لوگ ایسا کہہ سکتے ہیں کہ ان احادیث میں تو یہ بات مشترک ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود روک دیا لہذا یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا تھا اور باقی حدیثوں کو بیان کرنے سے منع کا ثبوت یہاں سے نہیں ملتا، مشاجرات صحابہ سے تو آپ نے نہیں روکا تو گویا ان کے نزدیک یہ ہے کہ صرف ان چار حدیثوں سے ہی روکا گیا تھا باقی کسی حدیث سے نہیں روکا گیا تھا تو ایسے لوگوں کے لیے بھی ہمارے پاس جواب ہے۔
پانچویں حدیث:
ہم آپ کو پہلے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انجینئر صاحب یہ کہتے ہیں کہ کوئی امام حدیث ذکر کرنے سے پہلے کوئی باب قائم کرے تو یہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے تو ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا عقیدہ تو یہ ہے کہ علم کو بعض لوگوں سے بیان کر کے بعض لوگوں سے چھپایا جا سکتا ہے جیسا باب قائم کرنے کا بعد اور حدیث ذکر کرنے سے پہلے امام صاحب نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول پیش کیا۔
وہ یہ کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری: 127) فرماتے ہیں :
حَدِّثُوا النَّاسَ، بِمَا يَعْرِفُونَ أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ، اللَّهُ وَرَسُولُهُ
لوگوں کو وہ حدیثیں بیان کرو جن کے بارے میں ان کو معرفت ہے، کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے؟
اس قول کو سننے کے بعد ہمارے مقدمے میں کوئی شک وشبہ نہیں رہ جاتا، ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سلف کے عقیدے کو سمجھ چکا ہے، قرآن وسنت کی رائے مشاجرات صحابہ کے بارے میں وہ سمجھ چکا ہے تو آپ اس کے سامنے مشاجرات صحابہ کو بیان کر سکتے ہیں، آپ ان لوگوں کو مشاجرات صحابہ بیان کر سکتے ہیں جنہیں اس حوالے سے معرفت ہے اور جنہیں اس معاملے میں معرفت نہیں ہے وہ اس معاملے میں کسی ایک سے طرف داری رکھ کر دوسرےکے بارے میں اپنےذہن کو خراب کرے گا اور وہ گمراہ ہو جائے گا۔
اسی حوالے کا ایک قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کا بھی ہے اس کے بارے میں مرزا صاحب کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما جو اتنا بڑا دعویٰ کر رہے ہیں وہ پھینکنے والا نہیں ہے یقیناً اس روایت کی اصل موجود ہے۔
تبصرہ:
یعنی مرزا صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کوئی صحابی کوئی بڑا دعوی کرے تو وہ اپنی طرف سے تو نہیں کرے گا، یقیناً اس کی کوئی اصل موجود ضرور ہوتی ہے اور ہم اس کو محدثین کی اصطلاح میں ”مرفوع حکمی” کہتے ہیں تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی اپنی طرف سے یہ بیان نہیں کر رہے، یقیناً سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ بات قرآن وسنت سے سمجھی ہے۔
چھٹی حدیث:
سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری: 7323) بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کوئی بات کہی تو سیدنا عمر کہنے لگے کہ میں ابھی کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دیتا ہوں (اور اس روایت کو بیان کرنے والے بھی سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما ہیں) تو سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ایسا نہ کریں کیونکہ:
فَإِنَّ المَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ، يَغْلِبُونَ عَلَى مَجْلِسِكَ، فَأَخَافُ أَنْ لاَ يُنْزِلُوهَا عَلَى وَجْهِهَا، فَيُطِيرُ بِهَا كُلُّ مُطِيرٍ، فَأَمْهِلْ حَتَّى تَقْدَمَ المَدِينَةَ دَارَ الهِجْرَةِ وَدَارَ السُّنَّةِ، فَتَخْلُصَ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ المُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ، فَيَحْفَظُوا مَقَالَتَكَ وَيُنْزِلُوهَا عَلَى وَجْهِهَا
مفہوم: یہ حج کا موقع ہے اور حج کے لیے دوسرے علاقوں سے بھی لوگ آتے ہیں، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو دین کے حوالے سے کوئی اتنا علم نہیں ہوتا اور ان میں بات کو صحیح سمجھنے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی، مجھے ڈر ہے کہ جو باتیں آپ لوگوں کے سامنے قرآن وسنت سے پیش کریں گے وہ اس کو اس کے اصل مفہوم پر سمجھ نہیں سکیں گے، اس بات کے صحیح مفہوم کو سمجھے بغیر وہ آگے بیان کر دے گا تو معاملہ خراب ہو جائے گا اس لیے آپ جب مدینہ جائیں گے کہ جو دار الہجرہ بھی ہے اور دار السنہ بھی وہاں اکیلے مہاجرین وانصار کو مل لیجئے گا، وہ ایک تو آپ کی بات کو یاد بھی رکھیں گے اور اس کو صحیح معاملے میں اس کو فٹ بھی کریں گے، اس کا غلط مطلب نہیں لیں گے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا یہ مطالبہ قبول کر لیا، ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو انہوں نے مہاجرین وانصار کو جمع کر کے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الكِتَابَ، فَكَانَ فِيمَا أُنْزِلَ آيَةُ الرَّجْمِ
اللہ تبارک وتعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا اور کتاب بھی نازل فرمائی، جو کتاب آپ پر نازل ہوئی تھی اس میں رجم والی آیت بھی تھی۔
نوٹ: یہاں یہ حدیث مختصر ہے لیکن صحیح بخاری میں ہی دیگر مقامات پر اس کی تفصیل موجود ہے۔ یہ کتنی واضح احادیث ہیں کہ جن سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے لوگوں کی ذہنی سطح کو دیکھ کر بات کرنی چاہیے، بھلے وہ قرآن وحدیث کی بات ہی کیوں نہ ہو۔
