سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی غلطی اجتہادی تھی

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی غلطی اجتہادی تھی

مرزا صاحب! نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی گستاخیاں کی ہیں خصوصاً سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ نے کہا کہ انہوں نے جو برے اعما ل کیئے ہیں ان کا وبال تا قیامت ان کے کندھوں پر رہے گا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

جبکہ آپ نے خود A5 ریسرچ پیپر میں صفحہ نمبر 3 پر عنوان قائم کیا کہ (یہاں ہم مرزا صاحب کی ہی عبارت نقل کریں گے) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی غلطی اجتہادی تھی اور اس عنوان کے تحت آپ نے لکھا کہ اس انتہائی نازک موضوع پر دو صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں:

ترجمہ صحیح حدیث: سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! جب کوئی حاکم اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور صحیح فیصلے پر پہنچ جائے تو اسے دوگنا اجر ملتا ہے اور اگر وہ اجتہادی خطا کر بیٹھے تو (بھی اچھی نیت پر) اس کے لیے ایک اجر ہے۔ (صحیح بخاری: حدیث نمبر، 7352، صحیح مسلم: حدیث نمبر، 4487)

نوٹ: جنگ جمل اور جنگ صفین میں امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے لڑنے والوں کو دوگنا اور مخالفین کو بھی ایک اجر ملے گا کیونکہ دونوں طرف سے شریک صحابہ رضی اللہ عنھم مجتہد تھے۔

آپ نے خود بتایا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جو مخالفت کی اور لڑائی ہوئی یہ ان کی اجتہادی خطا تھی اور پھر حدیث سے آپ نے ثابت کیا کہ جو شخص اجتہادی غلطی کرتا ہے اس کی نیت اچھی ہوتی ہے اور آپ کی منافقت تو یہ ہے کہ آپ نے کئی بار کہا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی بدنیتی کی بنا پر کی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ڈھونگ رچایا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

مرزا صاحب! اللہ کے لیے کچھ تو غور کریں، جب آپ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنھم کا احترام کرنا ہے اور پھر ان کے بارے میں بد نیتی، ڈھونگ رچانے کی باتیں کرنا، کیا یہی احترامِ صحابہ رضی اللہ عنھم ہے؟ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ موددی صاحب اور جھالوی صاحب نے ڈھونگ رچایا؟ جب ان کے بارے میں ایسی بات نہیں کہہ سکتے تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ جن کا احترام آپ قرآن سے ثابت کر رہے ہیں، جن کے اوصاف تورات وانجیل میں موجود ہیں ان کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے ڈھونگ رچایا، انہوں نے بد نیتی کی بنا پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی کی؟

جس شخص کو لڑائی پر ایک اجر مل گیا (جیسا کہ مرزا صاحب خود اس بات کے اقراری ہیں) کیا وہ قابل طعن وملامت ہے؟ کیا اس پر آوازیں کسنی چاہیئیں؟ اور ان کے بارے میں یہ کہنا چاہیے کہ انہوں نے دین برباد کر دیا؟ ویڈیوز لیکچرز میں تو آپ رافضیت والی تمام باتوں پر عمل پیراں ہیں اوراپنی تحریر میں آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ دونوں طرف سے شریک صحابہ رضی اللہ عنھم مجتہد تھے۔ اگر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ غلطی ہے تو آپ کے بقول بھی کم از کم ایک اجر تو ان کے لیے ثابت ہے۔ آپ کس کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں؟


جواب دیں