مرزا صاحب کی طرف سے صحابہ کرام اور شعرائے اسلام کی توہین
انجنیئر محمد علی مرزا صاحب نے پہلے بھی شعرائے اسلام میں سے علامہ اقبال رحمہ اللہ پر اپنی نادانی کی وجہ سے بہتان لگا دیا تھا کہ انہوں نے علم وعقل کی توہین کی ہے ہم نے بتایا کہ آپ نے اپنی عقل کا فطور علامہ اقبال رحمہ اللہ پر ڈالنے کی کوشش کی ہے، علامہ اقبال رحمہ اللہ انسان تھے، ان کی غلطیاں ہیں لیکن یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ اپنے آپ کو مشہور کرنے کے لیے علامہ اقبال رحمہ اللہ پر جھوٹے الزام لگانا شروع کر دیں اور ان کی صحیح باتوں کو بھی لوگوں کے سامنے غلط رنگ دے کر لوگوں کے ذہنوں کو خراب کرنا شروع کر دیں اور یہی طریقہ آپ نے اسی مجلس نمبر 9 میں اختیار کیا، اس میں آپ نے کہا کہ ”جتنے شاعر ہیں آپ کو بے عمل نظر آئیں گے، میں بڑے شعراء کے نام اس لیے نہیں لونگا کیونکہ لوگوں کی عقیدتیں وابستہ ہیں، ان کے عشق رسول نے ان کو اس لیول پر نہیں لایا کہ وہ داڑھی رکھ لیں۔”
بحر حال مرزا صاحب نے اشارتاً علامہ اقبال رحمہ اللہ کی توہین کردی، ہم کہتے ہیں کہ داڑھی نہ رکھنا یہ کمی وکوتاہی ہے لیکن آپ کو پھکی والا جواب دینے کے لیے پوچھتے ہیں کہ اگر داڑھی نہ رکھنا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں تھی تو پھر غامدی صاحب کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، ان کی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس لیول تک پہنچایا ہے کہ وہ داڑھی رکھ لیں؟ غامدی صاحب کو آپ بڑا سکالر مانتے ہیں اور لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ان کو سنو، غامدی صاحب کی تعریفوں کے آپ پل باندھتے ہیں۔
ایک من گھڑت قصہ علامہ اقبال رحمہ اللہ کی طرف مرزا صاحب نے منسوب کر دیا کہ وہ ایک دفعہ نائی کے پاس داڑھی مونڈانے گئے تو ایک شخص نے اقبال سے یہ کہہ دیا کہ آپ داڑھی کیوں نہیں رکھتے؟ تو اقبال نے کہا کہ میں کسی کا دل تو نہیں دکھاتا تو مرزا صاحب کے الفاظ یہ ہیں کہ “اس شخص نے ان کو پھکی دی کہ آپ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دکھا رہے ہیں، داڑھی رکھنے کا حکم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا تو علامہ اقبال یہ بات سن کر بے ہوش ہوگئے۔”
مرزا صاحب نے طعن کرتے ہوئے کہا کہ”یہ بے ہوش ہی ہو سکتے تھے عمل نہیں کرسکتے۔”
مرزا صاحب نے خود اپنے پمفلٹ کے باہر لکھا ہوا ہے کہ ”تاریخ کے بےسند روایات اور جھوٹے واقعات کی حثییت کھوٹے سکوں کی مانند ہے۔” تو مرزا صاحب یہ واقعہ کھوٹا سکّہ نہیں ہے؟ اس کی کوئی سندہے؟ آپ علامہ اقبال رحمہ اللہ پر اس طرح کی طنز اس لیے کرتے ہیں کہ میں مشہور ہو جاؤں؟
مرزا صاحب نے علامہ اقبال رحمہ اللہ کے ایک شعر پر طنز کی کہ ان کو تو اتنی بھی عقل نہیں تھی کہ وہ شعر صحیح پڑھتے۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ کا شعر یوں تھا؛
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
تو آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
مرزا صاحب کہتے ہیں کہ یہ شعر درست نہیں ہے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا، لوگ مباہلے کے چیلنج دے رہے ہیں ایک دوسرے کو کہ آؤ آگ میں چھلانگ لگاتے ہیں وہ اس طرح کی شعر پڑھ کر ہی کہہ رہے ہوتے ہیں۔
مرزا صاحب! کسی نے اگر اس طرح کی جہالت ماری ہے کہ آؤ، آگ میں چھلانگ لگاتے ہیں تو کیا علامہ اقبال رحمہ اللہ نے ان کو ایسا کرنے کے لیے کہا تھا، خدا کا خوف کریں آپ، جو بات علامہ اقبال نے کہی ہی نہیں، جو ان کے شعر سے ثابت ہوتا ہی نہیں تھا وہ آپ نے ان کے ذمے لگا دیا اور اس بنا پر ان کی توہین کرتے رہے اور لوگوں کے ذہنوں سے علامہ اقبال رحمہ اللہ کے حوالے سے جو محبت ہے اس کو نکالنے کی کوشش کرتے رہے، مرزا صاحب کی حالت یہ ہے کہ اقبال کا پورا شعر صحیح نہیں پڑھنا آتا اور اعتراض کرنے چلے ہیں شاعرِ مشرق پر، مرزا صاحب نے شعر یوں پڑھا؛
ہو آج بھی ابراہیم سا ایماں پیدا
تو آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
حالانکہ اصل یہ شعر تھا؛
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
تو آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
مرزا صاحب آپ کو تو اقبال کا شعر بھی صحیح نہیں پڑھنا آتا اور آپ اس پر طعن کرتے ہیں؟ اصل میں علامہ اقبال رحمہ اللہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ اگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے ملتا جلتا ایمان کسی کے اندر پیدا ہو جائے یعنی ایمان میں پختگی اور مضبوطی آ جائے تو پھر جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ نقصان نہیں پہنچا سکی تھی، اسی طرح اب بھی مسلمان اگر اپنے ایمان کو مضبوط کرلیں تو کفار کی سازشیں دم توڑ سکتی ہیں اور اللہ کی مدد اب بھی آ سکتی ہے۔ بدرکے موقع پر 313 مسلمان 1000 کے مقابلے میں آئے تو کیا اس وقت اللہ کی مدد نہیں آئی تھی؟ اور اس طرح کے بہت سارے واقعات ہمیں آج کے دور میں بھی ملتے ہیں۔
مرزا صاحب نے صرف علامہ اقبال رحمہ اللہ کی توہین نہیں کی بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی بھی کی، کہتے ہیں کہ ؛
“حسان بن ثابت کو ہی دیکھ لیں وہ شاعر تھے اور شاعر بندہ لڑائی جھگڑا کر ہی نہیں سکتا۔”
مرزا صاحب کہتے ہیں کہ جو شاعر ہو وہ کافروں سے لڑائی نہیں کر سکتا اور وہ اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کر سکتا حالانکہ اگر آپ کا کوئی مطالعہ ہو تو سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ ان کی جسم میں کوئی اس طرح کی بیماری تھی جس کی وجہ سے وہ جہاد کے میدان میں آگے آگے نہیں رہ سکے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ شاعر ہونے کہ وجہ سے بزدل تھے، معاذاللہ۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ صحیح بخاری (4261) میں ہے؛
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ موتہ میں سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو سپاہ سالار مقرر کیا اور فرمایا:
إِنْ قُتِلَ زَيْدٌ فَجَعْفَرٌ، وَإِنْ قُتِلَ جَعْفَرٌ فَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ
اگر سیدنا زید رضی اللہ عنہ شہید ہو جائیں تو پھر کمانڈر سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ ہونگے اور اگر سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو جائیں تو پھر کمانڈری سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ہونگے۔
سیدنا عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ شعرائے اسلام میں شامل بھی ہیں اور جنگوں میں کفار کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے کمانڈری بھی کرتے تھے اور ان کے شعر بھی بڑے مشہور ہیں؛
سنن النسائی (2873) میں ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ عمرۃ القضاء کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے چل رہے تھے اور کافروں کے خلاف یہ شعر پڑھ رہے تھے کہ؛
خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيلِهِ … الْيَوْمَ نَضْرِبْكُمْ عَلَى تَنْزِيلِهِ
ضَرْبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ … وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ
ہم قرآن کے حکم کے مطابق کافروں سے لڑائی کر رہے ہیں۔
اسی طرح کئی اور روایات موجود ہے کہ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کافروں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم قرآن کے حکم کے مطابق تم سے لڑائی کر رہے ہیں، یہ شاعرِ اسلام بھی ہیں اور مسلمانوں کے سپاہ سالار بھی ہیں، جب کہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ جو شاعر ہوتا ہے وہ کفار کے بھی مقابلے میں جہاد نہیں کر سکتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کے جو غلط کمنٹس ہیں ان سے آپ رجوع کریں، اللہ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔
سیدنا ابو سفیان بن الحارث رضی اللہ عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، صحیح مسلم (1775) میں ان کا واقعہ موجود ہے کہ جب غزوہ حنین کے موقع پر جب کفار کی طرف سے اچانک حملہ ہوا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بکھر گئے تھے تو اس وقت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو سفیان بن الحارث رضی اللہ عنہ یہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور یہ کمال بہادری کی مثال ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پریشانی میں تھوڑی دیر کے لیے بکھر گئے تو یہ دونوں اس وقت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے۔
اور سیدنا ابو سفیان بن الحارث رضی اللہ عنہ بھی نمایاں شعرائے اسلام میں شامل ہیں جب کہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ جو شاعر ہوتا ہے وہ کفار کے بھی مقابلے میں جہاد نہیں کر سکتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کے جو غلط کمنٹس ہیں ان سے آپ رجوع کریں ،اللہ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔
